Thursday, 27 October 2016

🌞چھٹی کا دن🌞

پڑھیےاگرپسندآئےتوشئیرکیجئے
کل چھٹی کا دن تھا، میرا پٹواری دوست بڑے عرصے بعد اپنی منحوس شکل لے کر پھر میرے پاس آگیا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد اس نے کچھ کھانے کی فرمائش کی۔ میں نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور شہر کے مشہور ریسٹورنٹ لے گیا۔ وہاں ہم نے دیسی بکرے کے سری پائے، گرما گرم نان، پیڑے والی لسی کے ڈبل گلاس آرڈر کئے اور ناشتہ شروع کردیا۔

میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ کیا وہ حکومت کی کارکردگی سے خوش ھے؟
اس نے بلند آواز میں ڈکار لیا اور اپنے زرد دانتوں کی نمائش کرکے کہا کہ وہ شریف برادران کی پرفارمنس سے بہت خوش ھے۔

میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا، اورنج ٹرین، میٹرو بس اور دوسری سڑکوں کے جو منصوبوں شریف برادران نے شروع کئے ہیں، وہ پاکستانی عوام پر ایک احسان ہیں جن کا صلہ ہماری آنے والی نسلیں بھی نہیں اتار سکیں گی۔

یہ سڑکیں، پل اور مالٹا ٹرین شریف خاندان کا ہمارے لئے بہت بڑا تحفہ ہیں اور صرف تمہارے جیسے (مراد میں تھا) ناشکرے لوگ ہی اس احسان کو ماننے سے انکاری ہیں۔

میں اس کی پرجوش تقریر چپ چاپ سنتا رہا اور سری پائے کھاتا رہا۔ جب ہم کھانا کھا چکے تو ویٹر بل لے کر آگیا جو تقریباً 1600 روپے بنا۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو 5 ہزار کا نوٹ تھا، ویٹر کو دیا تو وہ تھوڑی دیر بعد واپس آگیا اور کہا کہ صبح کا وقت ھے، ان کے پاس چینج نہیں۔ میں نے اپنے دوست سے کہا تو اس نے بری سی شکل بنائی اور اپنی جیب سے 100، 50، 20 اور 10 روپے کے نوٹ نکال کر بڑی مشکل سے پورے کرکے ویٹر کو دیئے اور ہم باہر نکل آئے۔

ناشتہ کرنے کے بعد ہم ایک پارک میں سیر کیلئے نکل گئے۔ اس دوران بھی میرا دوست شریف برادران کے ترقیاتی منصوبوں کے احسانات جتلاتا رہا۔ 11 بجے کے قریب ہم وہاں سے نکلے تو مجھے یاد آیا کہ میں نے لانڈری سے اپنے سوٹ ڈرائی کلین کیلئے دیئے تھے، وہ واپس لے لوں۔ میں اپنے دوست کو لے کر ڈرائی کلینر کے پاس پہنچا، 4 سوٹس کے 2400 روپے بنے، میں نے ایک دفعہ پھر 5000 کا نوٹ دیا تو ڈرائی کلین والے نے بھی صبح کے وقت کا بہانہ لگایا اور ریکوئسٹ کی کہ میں اسے کھلے نوٹ دے دوں۔
میں نے ایک دفعہ پھر اپنے دوست کی طرف دیکھا تو اس نے پہلے سے بھی زیادہ بری شکل بنا کر اپنی جیب سے پرس نکالا اور بڑی احتیاط سے تہہ کئے ہزار ہزار کے نوٹ نکال کر 2400 روپے دکاندار کو دے دیئے۔

سوٹ گاڑی میں رکھ کر میں موبائل مارکیٹ آگیا۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ ایک بیک اپ فون خریدا جائے۔ ہم سیدھا سام سنگ کے ڈیلر کے پاس پہنچے اور ایس 6 کا ریٹ فائنل کیا۔ 42 ہزار روپے میں ڈیل فائنل ہوئی۔ پے منٹ کیلئے کریڈٹ کارڈ دیا تو لنک فیل کا میسج آگیا۔ بار بار ٹرائی کرنے پر بھی میرا کارڈ نہ چل سکا۔ میں نے ایک دفعہ پھر اپنے دوست کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر تقریباً نحوست کے سائے نمودار ہوچکے تھے۔ مردہ دلی سے اس نے اپنا ڈیبٹ کارڈ دیا جو کہ فوراً چارج ہوگیا۔ میں نے دکاندار سے موبائل لیا اور ہم واپس گاڑی میں آگئے۔

میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ لنچ کا ارادہ ھے تو اس نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔ غالباً وہ ڈر چکا تھا کہ کہیں لنچ بھی اس کی جیب سے نہ نکل جائے۔ خیر، میں نے اپنے دوست کو اس کے گھر ڈراپ کیا اور اسے کہا کہ تم میرا شکریہ ادا نہیں کروگے؟

میرے دوست نے حیرانگی سے پوچھا، کس بات کا شکریہ؟

میں نے جواب دیا:

میری وجہ سے تم نے اتنا زبردست ناشتہ کیا، پارک میں سیر کی، لانڈری اور موبائل مارکیٹ سے شاپنگ ہوئی ۔ ۔ ۔

میرا دوست جل کر بولا:

تمہارا کیوں شکریہ ادا کروں؟ یہ سب کچھ تو میرے پیسوں سے خریدا گیا تھا۔ ۔ ۔

یہ سن کر میں نے اپنی کولہاپوری چپل اتاری اور گن کر 11 جوتے اس پٹواری کے سر پر رسید کردیئے۔ جوتے کھا کر پہلے تو اس کی حالت خراب ہوگئی، جب زرا سنبھلا تو پوچھا کہ آج اسے جوتے کیوں مارے؟

میں نے جواب دیا:

جب میں نے تمہارے پیسوں سے تمہں ناشتہ کروایا تو تم میرا شکریہ ادا نہیں کررھے، تو پھر اے کھوتا خور منحوس انسان، جب شریف برادران ہمارے پیسوں سے سڑکیں بناتے ہیں تو پھر اس میں احسان والی کیا بات ہوئی؟ ہمارے ٹیکسوں کے پیسوں سے وہ 10 فیصد سڑکوں پر لگا کر باقی کے 90 فیصد اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں اور تم اتنے بے غیرت، جاہل سپورٹر ہو کہ ان کی واہ واہ کرتے رہتے ہو، اپنی نسلوں کو ان کا احسانمند کہتے ہو ۔ ۔ ۔

یہ سن کر میرے دوست کو احساس ہوگیا کہ وہ غلطی پر تھا ۔ ۔ ۔ میں اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگا تو وہ میرے پاس آیا اور اپنے پیسوں کا مطالبہ کیا۔ میں نے جواب دیا:

میں اپنا نیا موبائل گروی رکھ کر ہر مہینے تھوڑے تھوڑے کرکے لوٹا دوں گا ۔ ۔ ۔

جب تک اسے بات کی سمجھ آتی، میں گروی رکھی موٹروے پر اپنی گاڑی چڑھا چکا تھا۔ ۔ ۔ ۔

Tuesday, 25 October 2016

لفظی سچ

شادی شدہ لوگ ضرور پڑھیں مزا آئیگا.

کالج میں Happy married life پر ایک workshop ہو رہی تھی، جس میں کچھ شادی شدہ جورے حصہ لے رہے تھے. جس وقت پروفیسر اسٹیج پر آئے انہوں نوٹ کیا کہ تمام شادی شدہ لوگ لطیفے سن کر ہنس رہے تھے ...

یہ دیکھ کر پروفیسر نے کہا کہ چلو پہلے ایک Game کھیلتے ہیں ....... اس کے بعد اپنے موضوع پر باتیں کریں گے.

سب خوش ہو گئے ...... اور کہا کونسا Game؟

پروفیسر نے ایک married لڑکی کو کھڑا کیا

اور کہا کہ    آپ بلیک بورڈ پہ ایسے 25- 30 لوگوں کے نام لکھو جو تمہیں سب سے زیادہ پیارے ہوں.

لڑکی نے پہلے تو اپنے خاندان کے لوگوں کے نام لکھے، پھر اپنے سگے رشتہ دار، دوستوں، پڑوسی اور ساتھیوں کے نام لکھ دیے ...

اب پروفیسر نے اس میں سے کوئی بھی کم پسند والے 5 نام مٹانے کے لیے کہا ...

لڑکی نے اپنے دوستوں کے نام مٹا دیے ..

پروفیسر نے اور 5 نام مٹانے کے لیے کہا ...
لڑکی نے تھوڑا سوچ کر اپنے پڑوسيو کے نام مٹا دیے ...

اب پروفیسر نے اور 10 نام مٹانے کے لیے کہا ...

لڑکی نے اپنے سگے رشتہ داروں کے نام مٹا دیے ...

اب بورڈ پر صرف 4 نام بچے تھے جو اس کے ممي- پاپا، شوہر اور بچے کا نام تھا ..

اب پروفیسر نے کہا اس میں سے اور 2 نام مٹا دو ...لڑکی کشمکش میں پڑ گئی بہت سوچنے کے بعد بہت دکھی ہوتے ہوئے اس نے اپنے ممي- پاپا کا نام مٹا دیا ...

تمام لوگ دنگ رہ گئے لیکن پرسکون تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ کھیل صرف وہ لڑکی ہی نہیں کھیل رہی تھی بلکی ان کے دماغ میں بھی یہی سب چل رہا تھا.

اب صرف 2 ہی نام باقی تھے ..... شوہر اور بیٹے کا ...

پروفیسر نے کہا     اور ایک نام مٹا دو ...

لڑکی اب سہمی سی رہ گئی ........ بہت سوچنے کے بعد روتے ہوئے اپنے بیٹے کا نام کاٹ دیا ...

پروفیسر نے اس لڑکی سے کہا تم اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ جاؤ ... اور سب کی طرف غور سے دیکھا ..... اور پوچھا: کیا کوئی بتا سکتا ہےکہ ایسا کیوں ہوا کہ صرف شوہر کا ہی نام بورڈ پر رہ گیا.

کوئی جواب نہیں دے پایا .......... تمام لوگر منہ لٹکا کر بیٹھے تھے ...

پروفیسر نے پھر اس لڑکی کو کھڑا کیا اور کہا ......... ایسا کیوں؟

جس نے تمہیں جنم دیا اور پال پوس کر اتنا بڑا کیا ان کا نام بھی تم نے مٹا دیا ........ اور تو اور تم نے اپنی کوکھ سے جس بچے کو جنم دیا اس کا بھی نام تم نے مٹا دیا؟

لڑکی نے جواب دیا .......
   کہ اب مممي- پاپا بوڑھے ہو چکے ہیں، چند سال کے بعد وہ مجھے اور اس دنیا کو چھوڑ کے چلے جائیں گے ...... میرا بیٹا جب بڑا ہو جائے گا تو ضروری نہیں کہ وہ شادی کے بعد میرے ساتھ ہی رہے.

لیکن میرے شوہر جب تک میری جان میں جان ہے تب تک میرا نصف جسم بن کے میرا ساتھ نبھائینگے اس لئے میرے لئے سب سے عزیز میرے شوہر ہیں ..

پروفیسر اور باقی اسٹوڈنٹ نے تالیوں کی گونج سے لڑکی کو سلامی دی ...

پروفیسر نے کہا

تم نے بالکل صحیح کہا کہ آپ اور سب کے بغیر رہ سکتی ہو

پر اپنے نصف عضو یعنی اپنے شوہر کے بغیر نہیں رہ سکتی

مذاق مستی تک تو ٹھیک ہے

پر ہر انسان کا اپنی زندگی کے ساتھی ہی اس کو سب سے زیادہ عزیز ہوتا ہے ...

یہ لفظی سچ ہے.

ایک یہودی اور چرواہا

*ایک یہودی اور چرواہا*
ایک یہودی کا گزر مسلمانوں کے ایک بستی سے ہوا ۔ اس کے دل میں ایک ترکیب آئی کہ *کیوں نہ میں انہیں ان کے دین کے تعلق سے ان کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کروں؟ اور انہیں ان کے علماء سے بد ظن کردوں۔*

بستی میں داخل ہونے سے پہلے ہی ایک چرواہے سے ملاقات ہوئی ۔ یہودی نے سوچا کہ کیوں نہ اسی جاہل سے اس کی ابتداء کی جائے اور اس چرواہے کے دل ودماغ میں اسلام کے خلاف شکوک وشبہات پیدا کیا جائے۔

*یہودی نے اس چرواہے سے ملاقات کی اور کہا کہ میں ایک مسلمان مسافر ہوں۔ باتوں ہی باتوں میں یہودی کہنے لگا کہ ہم مسلمان قرآن مجید کو یاد کرنے کے لئے کتنی مشقت اٹھاتے ہیں جب کہ یہ قرآن تیس اجزاء پر مشتمل ہے۔ لیکن قرآن میں بیشمار آیات متشابہ ہیں جو ایک جیسی ہی ہیں۔ بار بار دہرانے کی کیا ضرورت ہے ۔ اگر متشابہات کو نکال دیاجائے تو قرآن اور بھی مختصر ہوجائے گا اور یاد کرنے میں بہت آسانی بھی ہوجائے گی۔*

مسلم چرواہا اس کی بات غور سے سنتا رہا اور خاموش رہا ۔ جب یہودی کی بات مکمل ہوئی تو چرواہے نے کہا کہ واہ تمہار خیال تو بہت اچھا ہے ۔ یہودی دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ یہ چرواہا میرے جال میں آگیا ہے ۔

پھر اچانک چرواہے نے کہا کہ میرا ایک سوال ہے؟ یہودی نے کہا : پوچھئے تو صحیح؟ تم چاہتے ہوکہ قرآن میں جو متشابہات یا تکرار ہے اس کو نکال دینا چاہئے..؟

ہاں بالکل میرا یہی خیال ہے کہ جو آیت ایک مرتبہ سے زیادہ ہو اس کو قرآن سے خارج کردیا جائے تو قرآن مختصر ہوجائے گا اور یاد کرنے میں آسانی بھی ہوگی۔

*چرواہے نے کہا: مجھے ایسا لگتا ہے کہ تمہارے بدن پر بھی بعض اعضاء ایک سے زیادہ ہیں جو تکرار پیدا کررہے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے.*

*کیوں نہ تمہارے دو ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ کو کاٹ دیا جائے۔ دو پیروں میں سے ایک پیر ہی رکھا جائے اس لئے کہ یہ تکرار ہے۔ دو دو آنکھوں کی کیا ضرورت ہے کام تو ایک آنکھ سے بھی پورا ہوسکتا ہے کیوں نہ تمہاری ایک آنکھ بھی نکال دی جائے۔ دو کان اور دو گردوں کی کیا ضرورت ہے اس میں بھی تکرار ہے ۔ اگر ان تمام تکرار والے اعضاء کو نکال دیا جائے تو تمہار ا بدن بھی ہلکہ ہوجائے گا ۔ اور غذا کی مقدار بھی کم ہوجائے گی اور تمہیں زیادہ جدوجہد کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی، کیا خیال ہے..؟*

*یہودی اپنا سیاہ منہ لیکر فورا اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی راہ لی. زندگی بھر یہی سوچتا  رہا کہ جب مسلمانوں کے چرواہے کی یہ فکر ہے تو ان کے علماء کے افکار کیسے ہوں گے.؟

Saturday, 22 October 2016

قاضی اور مرغی 🐔

اﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ کہ بھائی ذرا اﺱ مرغی ﮐﻮ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ دے ﺩﻭ،،
ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵﻧﮯ ﮐﮩﺎ ،، ﻣﺮﻏﯽ ﺭکھ ﮐﺮچلے ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺁﺩﮬ ﮔﮭﻨٹے ﺑﻌﺪ ﺁ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ،،
ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯﺷﮩﺮ ﮐﺎ قاضی ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﯾﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ،،
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﯾﮧ مرغی ﻣﯿﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯽ ھﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﻏﯽ ﻧﮩﯿﮟ,،،،
قاضی ﻧﮯ کہا کہ کوئی بات نہیں ،، ﯾﮩﯽ مرغی ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ ﻣﺎﻟﮏ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﺎ کہ مرغی ﺍﮌ ﮔﺌﯽھے ،،
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ بھلا ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ھو گا ؟ مرغی تو ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯼ تھی پھر ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﮌ سکتی ھے ؟
قاضی ﻧﮯ ﮐﮩﺎ- ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ اسے غور سے ﺳﻨﻮ،، ﺑﺲ ﯾﮧ مرغی ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ ﺍﺱ کے مالک ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﻮ ﮐﮧ تیری مرغی ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے ،، ﻭﮦ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ خلاف مقدمہ لے کر ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ،،،
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﺍﻟﻠﻪ سب کا ﭘﺮﺩﮦ ﺭﮐﮭﮯ اور مرغی قاضی کو پکڑا دی ،،
قاضی ﻣﺮﻏﯽ ﻟﮯ ﮐﺮنکل ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ دکاندار سے ﮐﮩﺎ کہ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ھے ؟
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ میں نے تو کاٹ دی تھی مگر ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے ،،
ﻣﺮﻏﯽ ﻭالے نے حیران ھو کر پوچھا بھلا وہ ﮐﯿﺴﮯ ؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﮌ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﺌﯽ ھے ، دونوں میں پہلے نوک جھونک شروع ھوئی اور پھر بات جھگڑے تک جا پہنچی جس پر ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﭼﻠﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ قاضی کے پاس چلتے ھیں،، ﺩﻭﻧﻮﮞ نے ﻋﺪﺍﻟﺖ ﺟﺎﺗﮯ ھﻮﺋﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﻭ ﺁﺩﻣﯽ ﻟﮍ ﺭھﮯھﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ھﮯ جبکہ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮩﻮﺩﯼ,،، ﭼﮭﮍﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﯽ ﺁﻧکھ ﻣﯿﮟ جا ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭیہودی کی آنکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ،، ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎکہ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻟﮯ کر ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ،،
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﭘﺮ ﺩﻭ مقدے ﺑﻦ ﮔﺌﮯ, ﻟﻮﮒ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺐ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﺍپنے آپ کو چھڑا ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ھو کر ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼڑھ ﮔﯿﺎ, ﻟﻮﮒ جب ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟئے ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﯽ تو ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ،،
ﺍﺏ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ لیا ﺍﻭﺭ سب اس کو ﻟﮯ ﮐﺮ قاضی ﮐﮯ ﭘﺎس ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ،،،،
قاضی مرغی فروش ﮐﻮ ﺩﯾکھ ﮐﺮ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﺍ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﺮﻏﯽ ﯾﺎﺩ ﺁ ﮔﺌﯽ ﻣﮕﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﺩﻭ ﮐﯿﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ اسے ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ, ﺟﺐ قاضی ﮐﻮ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﯿﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ اس نے سر پکڑ لیا ،، اس کے بعد چند کتابوں کو الٹا پلٹا اور کہا کہ ھم تینوں مقدمات کا یکے بعد دیگرے فیصلہ سناتے ھیں ،، ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ،،
قاضی نے پوچھا ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﭘﺮ دعوی ﮐﯿﺎ ھے ؟
ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ ، جناب والا ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺮﻏﯽ ﭼﺮﺍﺋﯽ ھے ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ھﮯ ﮐﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے ،،
قاضی صاحب ﻣﺮﺩﮦ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﮌ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ؟؟
قاضی ، ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﻟﻠﻪ اور اس کی قدرت ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ،، ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ قاضی صاحب ،،
ﮐﯿﺎ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﮌﻧﺎ بھلا کیا مشکل ھے ،، ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ خاموش ھو گیا اور اپنا کیس واپس لے لیا ،،
قاضی ،، ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺪﻋﯽ ﮐﻮ ﻻﺅ،،, ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ عرض کیا کہ قاضی ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧکھ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﻣﺎﺭی ھے ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁنکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧکھ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ،، ,
قاضی ﻧﮯ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ،، ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﯽ ﺩﯾﺖ ﻧﺼﻒ ﮨﮯ, ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺁﻧکھ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﻮﮌﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺁﻧکھ ﭘﮭﻮﮌ ﺩﯾﻨﺎ۔
ﯾﮩﻮﺩﯼ ، بس ﺭھنے ﺩﯾﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﯿﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺘﺎ ﮨوں ،،،
قاضی ﺗﯿﺴﺮﺍ مقدمہ بھی پیش کیا جائے ،،
ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ عرض کیا کہ قاضی صاحب ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﭘﺮ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﺮﮔﯿﺎ ،،،
قاضی تھوڑی دیر ﺳﻮﭼﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻮﻻ،،، ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭکہ تم لوگ ﺍﺱ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ جاؤ ﺍﻭﺭ مدعی ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ مدعی علیہ ﭘﺮ اسی طرح ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎ دے جس طرح مرغی فروش نے اس کے باپ پر چھلانگ لگائی تھی ،، ،،
نوجوان نے کہا - قاضی صاحب ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮐﺮﻣﺮﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ،،
قاضی نے کہا ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ، میرا کام عدل کرنا ھے - ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﺎﭖ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ؟
مدعی نے اپنا دعوی واپس لے لیا ،،
** نتیجہ اگر آپ کے پاس قاضی کو دینے کے لئے مرغی ھے تو پھر قاضی بھی آپ کو بچانے کا ھر ھنر جانتا ھے ،،
** اُمید ہے پاکستانی سیاست کے تناظر میں آپ اس کہانی کا مطلب سمجھ تو گئے ہی ہونگے ....

Thursday, 20 October 2016

قاضی اور مرغی 🐔

اﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ کہ بھائی ذرا اﺱ مرغی ﮐﻮ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ دے ﺩﻭ،،
ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵﻧﮯ ﮐﮩﺎ ،، ﻣﺮﻏﯽ ﺭکھ ﮐﺮچلے ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺁﺩﮬ ﮔﮭﻨٹے ﺑﻌﺪ ﺁ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ،،
ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯﺷﮩﺮ ﮐﺎ قاضی ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﯾﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ،،
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﯾﮧ مرغی ﻣﯿﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯽ ھﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﻏﯽ ﻧﮩﯿﮟ,،،،
قاضی ﻧﮯ کہا کہ کوئی بات نہیں ،، ﯾﮩﯽ مرغی ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ ﻣﺎﻟﮏ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﺎ کہ مرغی ﺍﮌ ﮔﺌﯽھے ،،
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ بھلا ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ھو گا ؟ مرغی تو ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯼ تھی پھر ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﮌ سکتی ھے ؟
قاضی ﻧﮯ ﮐﮩﺎ- ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ اسے غور سے ﺳﻨﻮ،، ﺑﺲ ﯾﮧ مرغی ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ ﺍﺱ کے مالک ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﻮ ﮐﮧ تیری مرغی ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے ،، ﻭﮦ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ خلاف مقدمہ لے کر ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ،،،
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﺍﻟﻠﻪ سب کا ﭘﺮﺩﮦ ﺭﮐﮭﮯ اور مرغی قاضی کو پکڑا دی ،،
قاضی ﻣﺮﻏﯽ ﻟﮯ ﮐﺮنکل ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ دکاندار سے ﮐﮩﺎ کہ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ھے ؟
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ میں نے تو کاٹ دی تھی مگر ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے ،،
ﻣﺮﻏﯽ ﻭالے نے حیران ھو کر پوچھا بھلا وہ ﮐﯿﺴﮯ ؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﮌ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﺌﯽ ھے ، دونوں میں پہلے نوک جھونک شروع ھوئی اور پھر بات جھگڑے تک جا پہنچی جس پر ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﭼﻠﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ قاضی کے پاس چلتے ھیں،، ﺩﻭﻧﻮﮞ نے ﻋﺪﺍﻟﺖ ﺟﺎﺗﮯ ھﻮﺋﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﻭ ﺁﺩﻣﯽ ﻟﮍ ﺭھﮯھﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ھﮯ جبکہ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮩﻮﺩﯼ,،، ﭼﮭﮍﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﯽ ﺁﻧکھ ﻣﯿﮟ جا ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭیہودی کی آنکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ،، ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎکہ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻟﮯ کر ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ،،
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﭘﺮ ﺩﻭ مقدے ﺑﻦ ﮔﺌﮯ, ﻟﻮﮒ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺐ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﺍپنے آپ کو چھڑا ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ھو کر ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼڑھ ﮔﯿﺎ, ﻟﻮﮒ جب ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟئے ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﯽ تو ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ،،
ﺍﺏ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ لیا ﺍﻭﺭ سب اس کو ﻟﮯ ﮐﺮ قاضی ﮐﮯ ﭘﺎس ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ،،،،
قاضی مرغی فروش ﮐﻮ ﺩﯾکھ ﮐﺮ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﺍ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﺮﻏﯽ ﯾﺎﺩ ﺁ ﮔﺌﯽ ﻣﮕﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﺩﻭ ﮐﯿﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ اسے ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ, ﺟﺐ قاضی ﮐﻮ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﯿﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ اس نے سر پکڑ لیا ،، اس کے بعد چند کتابوں کو الٹا پلٹا اور کہا کہ ھم تینوں مقدمات کا یکے بعد دیگرے فیصلہ سناتے ھیں ،، ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ،،
قاضی نے پوچھا ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﭘﺮ دعوی ﮐﯿﺎ ھے ؟
ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ ، جناب والا ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺮﻏﯽ ﭼﺮﺍﺋﯽ ھے ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ھﮯ ﮐﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے ،،
قاضی صاحب ﻣﺮﺩﮦ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﮌ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ؟؟
قاضی ، ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﻟﻠﻪ اور اس کی قدرت ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ،، ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ قاضی صاحب ،،
ﮐﯿﺎ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﮌﻧﺎ بھلا کیا مشکل ھے ،، ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ خاموش ھو گیا اور اپنا کیس واپس لے لیا ،،
قاضی ،، ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺪﻋﯽ ﮐﻮ ﻻﺅ،،, ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ عرض کیا کہ قاضی ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧکھ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﻣﺎﺭی ھے ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁنکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧکھ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ،، ,
قاضی ﻧﮯ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ،، ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﯽ ﺩﯾﺖ ﻧﺼﻒ ﮨﮯ, ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺁﻧکھ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﻮﮌﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺁﻧکھ ﭘﮭﻮﮌ ﺩﯾﻨﺎ۔
ﯾﮩﻮﺩﯼ ، بس ﺭھنے ﺩﯾﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﯿﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺘﺎ ﮨوں ،،،
قاضی ﺗﯿﺴﺮﺍ مقدمہ بھی پیش کیا جائے ،،
ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ عرض کیا کہ قاضی صاحب ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﭘﺮ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﺮﮔﯿﺎ ،،،
قاضی تھوڑی دیر ﺳﻮﭼﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻮﻻ،،، ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭکہ تم لوگ ﺍﺱ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ جاؤ ﺍﻭﺭ مدعی ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ مدعی علیہ ﭘﺮ اسی طرح ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎ دے جس طرح مرغی فروش نے اس کے باپ پر چھلانگ لگائی تھی ،، ،،
نوجوان نے کہا - قاضی صاحب ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮐﺮﻣﺮﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ،،
قاضی نے کہا ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ، میرا کام عدل کرنا ھے - ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﺎﭖ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ؟
مدعی نے اپنا دعوی واپس لے لیا ،،
** نتیجہ اگر آپ کے پاس قاضی کو دینے کے لئے مرغی ھے تو پھر قاضی بھی آپ کو بچانے کا ھر ھنر جانتا ھے ،،
** اُمید ہے پاکستانی سیاست کے تناظر میں آپ اس کہانی کا مطلب سمجھ تو گئے ہی ہونگے ....

Wednesday, 19 October 2016

ایک مہذب اور رحمدل انسان

اس خاتون سے ہوائی اڈے پر جہاز کے انتظار میں وقت ہی نہیں کٹ پا رہا تھا.. کچھ سوچ کر دکان سے جا کر وقت گزاری کیلئے ایک کتاب اور کھانے کیلئے بسکٹ کا ڈبہ خریدا.. واپس انتظار گاہ میں جا کر کتاب پڑھنا شروع کی..
اس عورت کے ساتھ ہی دوسری کرسی پر ایک اور مسافر بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا.. ان دونوں کے درمیان میں لگی میز پر رکھے بسکٹ کے ڈبے سے جب خاتون نے بسکٹ اٹھانے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو اسے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ اس ساتھ بیٹھے مسافر نے بھی اس ڈبے سے ایک بسکٹ اٹھا لیا تھا.. خاتون کا غصے کے مارے برا حال ہو رہا تھا.. اس کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ تو وہ اُس کے منہ پر اس بے ذوقی اور بے ادبی کیلئے تھپڑ تک مارنے کا سوچ رہی تھی..
اس کی حیرت اس وقت دو چند ہوگئی جب اس نے دیکھا کہ جیسے ہی وہ ڈبے سے ایک بسکٹ اٹھاتی وہ مسافر بھی ایک بسکٹ اٹھا لیتا.. غصے سے بے حال وہ اپنی جھنجھلاہٹ پر بمشکل قابو رکھ پا رہی تھی..
جب ڈبے میں آخری بسکٹ آن بچا تو اب اس کے دل میں یہ بات جاننے کی شدید حسرت تھی کہ اب یہ بد تمیز اور بد اخلاق شخص کیا کرے گا..
کیا وہ اب بھی اس آخری بسکٹ کی طرف ہاتھ بڑھائے گا یا یہ آخری بسکٹ اس کیلئے رکھ چھوڑے گا..؟
تاہم اس کی حیرت اپنے عروج پر جا پہنچی جب مسافر نے اس آخری بسکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آدھا خود اٹھا لیا اور آدھا اس کیلئے چھوڑ دیا تھا..
خاتون کیلئے اس سے بڑھ کر اہانت کی گنجائش نہیں رہتی تھی.. آدھے بسکٹ کو وہیں ڈبے میں چھوڑ کر، کتاب کو بند کرتے ہوئے، اٹھ کر غصے سے پاؤں پٹختی امیگریشن سے ہوتی ہوئی جہاز کی طرف چل پڑی..
جہاز میں کرسی پر بیٹھ کر اپنے دستی تھیلے میں سے عینک نکالنے کیلئے کھولا تو یہ دیکھ کر حیرت سے اس کی جان ہی نکل گئی کہ اس کا خریدا ہوا بسکٹ کا ڈبہ تو جوں کا توں تھیلے میں بند رکھا ہوا تھا..
ندامت اور شرمندگی سے اس کا برا حال ہو رہا تھا.. اسے اب پتہ چل رہا تھا کہ وہ ہوائی اڈے پر بسکٹ اس شخص کے ڈبے سے نکال کر کھاتی رہی تھی..
اب دیر سے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ شخص کس قدر ایک مہذب اور رحمدل انسان تھا.. جس نے کسی شکوے اور ہچکچاہٹ کے بغیر اپنے ڈبے سے اسے بسکٹ کھانے کو دیئے تھے.. وہ جس قدر اس موضوع پر سوچتی اسی قدر شرمدنگی اور خجالت بڑھتی جا رہی تھی..
اس شرمندگی اور خجالت کا اب مداوا کیا ہو سکتا تھا.. اس کے پاس تو اتنا وقت نہ تھا کہ جا کر اس آدمی کو ڈھونڈے، اس سے معذرت کرے، اپنی بے ذوقی اور بے ادبی کی معافی مانگے، یا اس کی اعلٰی قدری کا شکریہ ادا کرے..
اسی لیے کہتے ہیں کہ کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ضروری نہیں کہ آپ کی قائم کی ہوئی رائے ہی ٹھیک ہو..!!

Muneeb Umair Saqi

Muneeb Umair Saqi