پڑھیےاگرپسندآئےتوشئیرکیجئے
کل چھٹی کا دن تھا، میرا پٹواری دوست بڑے عرصے بعد اپنی منحوس شکل لے کر پھر میرے پاس آگیا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد اس نے کچھ کھانے کی فرمائش کی۔ میں نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور شہر کے مشہور ریسٹورنٹ لے گیا۔ وہاں ہم نے دیسی بکرے کے سری پائے، گرما گرم نان، پیڑے والی لسی کے ڈبل گلاس آرڈر کئے اور ناشتہ شروع کردیا۔
میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ کیا وہ حکومت کی کارکردگی سے خوش ھے؟
اس نے بلند آواز میں ڈکار لیا اور اپنے زرد دانتوں کی نمائش کرکے کہا کہ وہ شریف برادران کی پرفارمنس سے بہت خوش ھے۔
میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا، اورنج ٹرین، میٹرو بس اور دوسری سڑکوں کے جو منصوبوں شریف برادران نے شروع کئے ہیں، وہ پاکستانی عوام پر ایک احسان ہیں جن کا صلہ ہماری آنے والی نسلیں بھی نہیں اتار سکیں گی۔
یہ سڑکیں، پل اور مالٹا ٹرین شریف خاندان کا ہمارے لئے بہت بڑا تحفہ ہیں اور صرف تمہارے جیسے (مراد میں تھا) ناشکرے لوگ ہی اس احسان کو ماننے سے انکاری ہیں۔
میں اس کی پرجوش تقریر چپ چاپ سنتا رہا اور سری پائے کھاتا رہا۔ جب ہم کھانا کھا چکے تو ویٹر بل لے کر آگیا جو تقریباً 1600 روپے بنا۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو 5 ہزار کا نوٹ تھا، ویٹر کو دیا تو وہ تھوڑی دیر بعد واپس آگیا اور کہا کہ صبح کا وقت ھے، ان کے پاس چینج نہیں۔ میں نے اپنے دوست سے کہا تو اس نے بری سی شکل بنائی اور اپنی جیب سے 100، 50، 20 اور 10 روپے کے نوٹ نکال کر بڑی مشکل سے پورے کرکے ویٹر کو دیئے اور ہم باہر نکل آئے۔
ناشتہ کرنے کے بعد ہم ایک پارک میں سیر کیلئے نکل گئے۔ اس دوران بھی میرا دوست شریف برادران کے ترقیاتی منصوبوں کے احسانات جتلاتا رہا۔ 11 بجے کے قریب ہم وہاں سے نکلے تو مجھے یاد آیا کہ میں نے لانڈری سے اپنے سوٹ ڈرائی کلین کیلئے دیئے تھے، وہ واپس لے لوں۔ میں اپنے دوست کو لے کر ڈرائی کلینر کے پاس پہنچا، 4 سوٹس کے 2400 روپے بنے، میں نے ایک دفعہ پھر 5000 کا نوٹ دیا تو ڈرائی کلین والے نے بھی صبح کے وقت کا بہانہ لگایا اور ریکوئسٹ کی کہ میں اسے کھلے نوٹ دے دوں۔
میں نے ایک دفعہ پھر اپنے دوست کی طرف دیکھا تو اس نے پہلے سے بھی زیادہ بری شکل بنا کر اپنی جیب سے پرس نکالا اور بڑی احتیاط سے تہہ کئے ہزار ہزار کے نوٹ نکال کر 2400 روپے دکاندار کو دے دیئے۔
سوٹ گاڑی میں رکھ کر میں موبائل مارکیٹ آگیا۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ ایک بیک اپ فون خریدا جائے۔ ہم سیدھا سام سنگ کے ڈیلر کے پاس پہنچے اور ایس 6 کا ریٹ فائنل کیا۔ 42 ہزار روپے میں ڈیل فائنل ہوئی۔ پے منٹ کیلئے کریڈٹ کارڈ دیا تو لنک فیل کا میسج آگیا۔ بار بار ٹرائی کرنے پر بھی میرا کارڈ نہ چل سکا۔ میں نے ایک دفعہ پھر اپنے دوست کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر تقریباً نحوست کے سائے نمودار ہوچکے تھے۔ مردہ دلی سے اس نے اپنا ڈیبٹ کارڈ دیا جو کہ فوراً چارج ہوگیا۔ میں نے دکاندار سے موبائل لیا اور ہم واپس گاڑی میں آگئے۔
میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ لنچ کا ارادہ ھے تو اس نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔ غالباً وہ ڈر چکا تھا کہ کہیں لنچ بھی اس کی جیب سے نہ نکل جائے۔ خیر، میں نے اپنے دوست کو اس کے گھر ڈراپ کیا اور اسے کہا کہ تم میرا شکریہ ادا نہیں کروگے؟
میرے دوست نے حیرانگی سے پوچھا، کس بات کا شکریہ؟
میں نے جواب دیا:
میری وجہ سے تم نے اتنا زبردست ناشتہ کیا، پارک میں سیر کی، لانڈری اور موبائل مارکیٹ سے شاپنگ ہوئی ۔ ۔ ۔
میرا دوست جل کر بولا:
تمہارا کیوں شکریہ ادا کروں؟ یہ سب کچھ تو میرے پیسوں سے خریدا گیا تھا۔ ۔ ۔
یہ سن کر میں نے اپنی کولہاپوری چپل اتاری اور گن کر 11 جوتے اس پٹواری کے سر پر رسید کردیئے۔ جوتے کھا کر پہلے تو اس کی حالت خراب ہوگئی، جب زرا سنبھلا تو پوچھا کہ آج اسے جوتے کیوں مارے؟
میں نے جواب دیا:
جب میں نے تمہارے پیسوں سے تمہں ناشتہ کروایا تو تم میرا شکریہ ادا نہیں کررھے، تو پھر اے کھوتا خور منحوس انسان، جب شریف برادران ہمارے پیسوں سے سڑکیں بناتے ہیں تو پھر اس میں احسان والی کیا بات ہوئی؟ ہمارے ٹیکسوں کے پیسوں سے وہ 10 فیصد سڑکوں پر لگا کر باقی کے 90 فیصد اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں اور تم اتنے بے غیرت، جاہل سپورٹر ہو کہ ان کی واہ واہ کرتے رہتے ہو، اپنی نسلوں کو ان کا احسانمند کہتے ہو ۔ ۔ ۔
یہ سن کر میرے دوست کو احساس ہوگیا کہ وہ غلطی پر تھا ۔ ۔ ۔ میں اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگا تو وہ میرے پاس آیا اور اپنے پیسوں کا مطالبہ کیا۔ میں نے جواب دیا:
میں اپنا نیا موبائل گروی رکھ کر ہر مہینے تھوڑے تھوڑے کرکے لوٹا دوں گا ۔ ۔ ۔
جب تک اسے بات کی سمجھ آتی، میں گروی رکھی موٹروے پر اپنی گاڑی چڑھا چکا تھا۔ ۔ ۔ ۔