ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
چشمِ دل کھول اُس بھی عالم پر
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے
بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
آتشِ غم میں دل بُھنا شاید
دیر سے بو کباب کی سی ہے
میر اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی ہے
(کلیاتِ میر:دیوانِ اوّل)
KM Photography Profile
www.facebook.com/kmphotography.net
No comments:
Post a Comment