پڑھیں اور پسند آیے تو شیئر کریں
گھر میں پچھلے چالیس دن سے اس کا انتظار ہو رھا تھا۔ ماں بہن اور اکلوتا چھوٹا
بھائی دن بھر اس کا انتظار کرتے اور تھک ھار کر شام کو ایک اگلی صبح کے انتظار میں بیٹھ جاتے۔ چھوٹا پوچھتا کہ ماں بھائی کب آئے گا مگر ماں کی خالی آنکھوں میں کوئی جواب نہ پا کر وہ خاموش ہو جاتا۔
ابا کی وفات کے بعد وہی اپنی بہن، بھائی اور ماں پر مشتمل خاندان کے خوشحال مستقبل کا واحد سہارا تھا۔ والد کی وفات کے بعد وہ اپنی کل اثاثہ جات جو گھر کے علاوہ فقط پچاس ہزار روپے میں پیچ کر یورپ کے کیلئے ایک خواب فروش کو دے آیا تھا جس کو باقی رقم وہاں جا کر کما کر ادا کرنی تھی۔ اور اب پچھلے چالیس روز سے اسکی واپسی کاشدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ آخر چالیسویں روز دوپہر کو ہمسائے کے فون پر ماموں جان نے اطلاع دی کہ وہ ایک گھنٹے میں پہنچ رہا ہے۔ ماں کا اور بہن بھائیوں کے چہرے ایک بار انجانی آسودگی سے چمکے مگر اگلے ہی لمحے ان پر مردنی چھا گئی۔ اماں بھائی آ رہا ہے ننھی نے پھر پوچھا تاہم جواب نہ پا کر وہ گھر میں موجود مہمانوں کے جھرمٹ میں گم ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی گاؤں کے مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر اسکی آمد کی اطلاع دی گئی اور ایمبولینس کا بھیانک ہوٹر چلانے لگا۔ ایمبولینس کے رکتے ہی پر اشتیاق لوگوں کا ہجوم گاڑی کے گرد امڈ آیا- ایمبولینس کا دروازہ کھلتے ہی ایک بھیانک انجانی بدبو کا بھبکا لپکا اور چند ایک لوگ اپنے مونہوں پر ھاتھ رکھے ابکائیاں لیتے ہوئے دوڑےاور بھیڑ چھٹنا شروع ہو گئی اور چند لمحوں میں سوائے قریبی احباب کے سب ایک حد فاصل پہ کھڑے تھے۔ ماں جو مسلسل چالیس دنوں سے رو رو کے آنسو خشک کر چکی تھی ایک آنسو کا اضافہ بھی نہ کر سکی۔ تابوت میں کیمیکل لگی لاش کو ڈھاٹے باندھ کر اتارا گیا اور گھر کے صحن میں آخری بار اتارا گیا اور فقط 5 منٹ اپنے آنگن میں اترنے کے بعد تابوت کو پہلے سے تیار شدہ قبر میں اس یقین کے ساتھ اتارا گیاکہ ایران والوں نے تابوت میں رکھتے وقت میت کو غسل دے دیا ہو گا! اپنے وطن سے دور گئے اس جوان کی امنگیں چالییس روز بعد اسکی اپنی ہی مٹی میں اس کے تار تار جسد خاکی کے ساتھ ہی دفن ہو گئیں۔
یہ براسطہ ایران، یونان کی سرحد پار کرنے سے فوری قبل ہی زندگی کی حد پار کر گئے تھے اس دیس سے اکتائے ہوئے یہ لوگ کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے کے مصداق نادانستہ ہی سہی اس دیس چلے گئے جہاں رزق، وطن، روزگار اور یورپ کے لفظ بے معنی ہوتے ہیں! انہیں اجل ایک ایجنٹ کے روپ میں ملا تھا جو زندگی اور اس کی حقیقت کی معنی بدل کر انہیں اس دہلیز پہ لے آیا جہاں سہانی زندگی اور حسین مستقبل کے ان متلاشیوں کی گھات میں موت بیٹھی تھا۔ ایران کی سرحد کراس کرتے ہی ان کو ہینڈز اپ کا سگنل ملا جس پر ردعمل نہ ملنے پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی- چونکہ انہیں گرفتاری نہ دینے کی ہدایات تھیں کہ اس سے سمگلرز کے بے نقاب ہونے کا خدشہ تھا اور پھر ملک کی بھی تو بدنامی ہوتی۔لہٰذا پورے کے پورے گروپ کو گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ اس کے سر اور چہرے پر اس قدر گولیاں لگی تھیں کہ لاش قریب قریب ناقابل شناخت ہو گئی تھی تاہم مختلف زاویوں سے لی گئی تصاویر اور ان سے بنائے گئے خاکے کی تصویر جب اخبار میں شائع ہوئی تو خوش قسمتی سے ایران میں مقیم ایک گاؤں کے دوست نے پہچان کر ایمبیسی کو اور لواحقین کو اطلاع دی اور ماموں نے واپسی کا بندوست کیا تو یہ اکیلا خوش نصیب اپنی مٹی پہ مدفون ہونے کا اعزاز حاصل کر سکا۔
اس کی تدفین ہو گئی تاہم ماں کی آنکھوں میں آنسو پھر بھی نہیں آئے اور وہ خاموش اور خشک آنکھوں سے سب کو دیکھتی رہی تاہم جب شام ڈھلےایجنٹ نے کمال فیاضی سے جیب سے وصول شدہ رقم پچاس ہزار کی گڈی نکال کر ماں کے ہاتھ پر واپس رکھی تو جانے ایکدم سے ایسا کیا ہوا کہ ماں کی فلک شگاف چیخیں بلند ہونےلگیں اور کے درمیان دھندلائی آنکھوں سے تازہ آنسوؤں کا ایک ریلا بہ نکلا۔
No comments:
Post a Comment