زمیں کا عہد
کیا آپ نے کسی انسان کو مرتے دیکھا ہے؟ یا کسی لاش کا مشاہدہ کیا ہے؟ خون میں لتھڑی ہوئی، فقط لاش جس کے دھڑ پر سر نہ ہو؟ تن پر کپڑے کی ایک دھجی بھی نہ ہو؟ اور عصمت کے جوہر سے بھی محروم ہو؟ کہیں آپ نے انسانی لاشوں سے بھرے ہوئے کنویں دیکھے ہوں یا گدھوں کو لاوارث لاشوں کو نوچتے دیکھا ہو؟ گلیوں کو خون سے دھلتے اور انسانی گوشت کو جلتے اور جنگلی جانوروں کی خوراک بنتے دیکھا ہو؟ نوجوان خواتین اور بچیوں کی سرعام میدانوں میں اجتماعی عصمت دری کے حیا سوز مناظر کا تصور کیا ہو یا ماوں کے سامنے لخت جگر کو نیزوں پہ چڑھتے اور عصمت دری کے خوف سے اپنوں کے ھاتھوُں رضا کارانہ سربریدگی اور اندھے کنووں کے اندر کودتے دیکھا ہو؟ جہاں انسانیت درندگی کی تمام حدوں کو پھلانگ رہی ہو؟ مجھے یقین ہے کہ ہم میں سے کسی نے دس لاکھ انسانوں کو وحشت ناک طریقے سے قتل ہوتے نہیں دیکھا ہو گا تاہم اس ارض وطن نے ان مناظر کو دیکھا ہے یہ درد اپنےاوپر جھیلے اور ان شہیدوں کا خون اپنے اندر سمویا ہے۔ آج ہم آزاد ہیں، محفوظ ہیں، باعزت ہیں محکوم نہیں ہیں، دنیا میں ایک حوالہ اور مقام رکھتے ہیں۔ اسلاف کا قیمتی لہو اس دھرتی کی وہ بنیاد ہے جس پر آج ہماری آزادی کی عمارت استوار ہے۔ قدر کیجئے، شکر کیجیے اور اس دھرتی کے لئیے اپنے روشن کردار کی فکر کیجئے۔ مت سوچئے کہ ملک نے آپکو کیا دیا! غور کیجئے، فکر کیجئے کہ آپ نے اس ملک کو کیا دیا۔ اپنا موازنہ ان دس لاکھ اسلاف سے کیجئے جنہوں نے اس ارض وطن سے کچھ مانگے بغیر اپنا سب کچھ اس پر قربان کر دیا۔ ان کا لہو ہماری آزادی کی بنیاد بنا، ہم نے کیا دیا؟ آزاد ملک کے آزاد شہریوں سے اس دھرتی کا کھلا سوال ہے! چلو یہ سوچیں ہم آج مل کے۔۔ جو اس زمیں سے کیا تھا ہم نے۔۔ وہ عہد کیا ہم نبھا رہے ہیں؟؟؟
No comments:
Post a Comment