Sunday, 16 October 2016

موت کا جھولا 🎠

موت کا جھولا
پڑھیے۔ پسند آئے تو شئیر کیجئے

زمانہ طالبعلمی کا وہ بھی ایک عام دن تھا۔  8 بج کر 52 منٹ تھے میں کمپیوٹر ٹیبل پر بیٹھا کام کر رہا تھا اورپاس ہی ارشدفرش پر لیٹا ہوا تھا۔ اچانک میری بوسیدہ ٹیبل جھولنے لگی اور اس پر پڑا کمپیوٹرہچکولے کھانے لگا۔مجھے لگا کہ شاید ارشد دھکیل رہا ہو۔اس سے پہلے کہ میں ارشدپہ جھپٹ پڑتا کہ کیوں ٹیبل کو توڑنا چاہ رہے ہو کہ  اوپری ریک میں پڑا کتابوں اور کاغذوں کا پلندہ دھڑام سے میرے اوپر آ گرا، ٹیبل ٹوٹا اور مانیٹر زمین بوس ہو گیا ۔ پھڑپھڑاتے صفحات زمین پہ ڈھیر ہونا شروع ہوئے اور ساتھ ہی پنکھا جھولتے ہوئے چھت سے جا ٹکرایا۔ ایک لمحے کو میری غضبناک نظریں ارشد سے ٹکرائیں،اس کی رنگت سفید اورآنکھیں پھیل گئی تھیں اور معاملہ ہماری سمجھ میں آگیا تھا۔ اس کےساتھ ہی گویا زبان نے ساتھ چھوڑ دیا۔ پوری شدت سے میں اور ارشد ایک ساتھ چلائے"زلزلہ" اور نہ جانے کس نادیدہ قوت نے گویا ہم کو اچھال دیا۔ ہم دھڑا دھڑ دوڑنا شروع ہوئے اور 37 سیڑھیوں کا سفر گویا اک پل میں سمٹ گیا۔  پہلی بار احساسں ہوا کہ بغیر جوتوں کے چار چار سنگی سیڑھیوں کوایک جست میں بھی پھلانگا جا سکتا ہے اور بغیر قمیض بھی لوگوں کی بھیڑ میں آیا جا سکتا ہے۔ ہمیں بس دوڑنا تھا اور ہم دوڑ رہے تھے۔ عمارتیں جھول رہی تھیں اور نیچے والے رہائشی براہ راست چھلانگیں لگا کر زمیں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ چیخ و پکار کا طوفان تھا اور سب لوگ فلیٹوں کے سامنے کھلے میدان تک پہنچنے کی تگ و دو میں تھے۔ میں نے آخری سیڑھی سے چھلانگ لگائی اور بے اختیار پیچھے آتے ارشد کو دیکھنے کو مڑا کہ میری نظر سامنے سے اچانک کھلنے والے گیٹ پر پڑی۔ یہ نوجوان خاتون کھلے بالوں کے ساتھ صحن سے دوڑتی دروازے میں نمودار ہوئی اور اس نے وحشت کے ساتھ دروازے میں سے جست لگائی۔ ابھی پہلا پاؤں ہی باہر آیا تھا کہ اسکا ھاتھ میکانکی انداز میں سر پر گیا اور وہ زور سے چلائی
''ھائے اللہ میرا دوپٹہ''
اس کے ساتھ ہی وہ واپس مڑی اور جھولتی لرزتی عمارتوں کے درمیان اپنے صحن میں غائب ہو گئی۔
میری وحشت تھم گئی اور آنکھ میں آنسو آ گئے۔ یا اللہ ایسے بھی لوگ ہیں جو تیرے احکام کو موت کے جھولے میں بھی نہیں بھولتے۔

No comments:

Post a Comment

Muneeb Umair Saqi

Muneeb Umair Saqi