فرض
پڑھیے اگرپسند آئے تو شئیر کریں؛ 🔥 🔥
اس روز بھی 5 نمبر ویگن سے اترتے ہی میں حسب معمول پیدل لاری اڈےکی طرف مڑا تھا کہ پیچھے سے کسی نےنہایت شائستگی سے میرے دائیں شانے پر ھاتھ رکھ دیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک نہایت پروقار، قیمتی لباس میں ملبوس، اور بڑے فریم کے چشمے سے جھانکتی چمکدار آنکھوں والی شخصیت کو سامنے پایا۔ سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ گویا ہوئے
''بیٹا کیا آپ مجھے جانتے ہیں؟''
میں نے ذہن پر زور دیا اور جواب نہ پا کر قدرے تحیّر سے ان کی طرف دیکھا۔
''معافی چاہتا ہوں بابا جی کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ میں آپکو کیسے جانتا ہوں؟''
وہ کچھ اس متانت اور وقار سے مجھ سے گویا ہوئے کہ مجھے انکے مرتبے کا قائل ہونا پڑا۔ کہنے لگے
''بیٹا آپ مجھے نہیں جانتے مگر میں آپکو جانتا ہوں''
میری حیرت دو چند ہو گئی جسے بھانپتے ہوئے بولے۔
'' بیٹا حیران نہ ہوں آپ اپنے حلیے اور چہرے بشرے سے کسی شریف خاندان کے سپوت اور کسی نیک ماں کے ہی بیٹے لگتے ہیں۔''
میرے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں اشتیاق چھلک آیا۔
''بابا جی میں آپکی کیا مدد کر سکتا ہوں؟'' میں نے مروت سے سوال کیا۔
بیٹا میں ایک شریف گھرانے کا فرد ہوں۔ کہتے ہوئے غیرت بھی بہت آ رہی ہے اور شرمندگی بھی ہے پر آپ بہت اچھے آدمی لگتے ہو تو آپ سے کہنے کی ہمت کر رہا ہوں"۔ تاہم یہ کہتے ہوئے انہوں نے ھاتھ اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھنے کیلئے بڑھائے اور چپ ہو گئے"۔
"بابا جی آپ کھل کے بتائیں میں آپکی کیا مدد کر سکتا ہوں؟" میں نے خاموشی کو توڑتے ہوئےاشتیاق سے سوال کیا۔
وہ ہمت مجتمع کر کے اور لڑکھراتی ہوئی خشک زبان سے بولے
"بیٹا میں نے سیالکوٹ جانا ہے مگر بدقسمتی سے میرے پیسے گر گئے ہیں اور اب میرے پاس کھانے اور کرایہ کیلئے ایک روپیہ بھی نہیں ہے۔ کتنی دیر سے کھڑا ہوں مگر کسی سہ مانگنے کا حوصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ بیٹا آپ مجھے اچھے خاندان اور نیک ماں کے بیٹے لگے ہو تو کہنے کی ہمت کر رہا ہوں۔ بیٹا انسانیت کے ناطے مجھے ایک سو تیس روپے کرایہ دے دیں میں کھانا کھائے بغیر بھی گزارہ کر لوں گا۔"
انسانیت کا واسطہ مجھے ہمیشہ سے جذباتی کر دیتا ہےیہی حالت میری اس وقت ہو رہی تھی اور میرے پورے بدن میں کپکپاہٹ آ گئی اور فرط جذبات سے آنکھوں کے گوشوں میں نمی تیرنے لگ گئی۔ کسی عزت دار آدمی کی بے بسی کا یہ عالم میرے احساسات کیلئے یکسر نیا تھا۔ اور یہ زندکی میں پہلا موقع تھا کہ اقبال کے شہر کے کس باسی نے میری غیرت کو مدد کیلئے پکارا تھا۔مجھ پر مدد کرنا لازم ہو چکا تھا۔میں نے اس تیزی کے ساتھہ جیب میں موجود تمام تین سو روپوں کو نکال کر بابا کی ہتھیلی پر منتقل کر کے ہتھیلی کو دبا دیا کہ گویا ایک لمحہ کی بھی دیر ہوئی تو میری جیب میں آگ لگ جائے گی اور اس کے ساتھ ہی میں لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو گیا تاہم میرا آخری شاٹ ضائع نہیں گیا تھا۔ رخصتی کی جلدی کے باوجود میری انگلیوں میں دبے ننھے بلیڈ نے بالکل درست وار کیا تھا۔ اور بابا کی جیب میں موجود اس دن کی کمائی مبلغ اٹھارہ سو روپیہ مہارت کے ساتھ میری جیب میں منتقل ہو چکی تھی۔
بھلے جیب کترنا میرا پیشہ ہے تاہم انسانیت اپنے خاندان اور اپنی ماں کی اچھائی کا بھرم رکھنا میرا فرض تھا جس کو ادا کرنے میں میں نے کوئی کوتاہی نہیں کی تھی!
No comments:
Post a Comment