Tuesday, 18 October 2016

ہزاروں روپے کمانے کا آسان طریقہ

فیس بک کا وہ حیرت آنگیز طریقہ جو آپ کو ہزاروں روپے ماہانہ کمانے میں مدد دے گا ۔

1 : سب سے پہلے آپنی فیس بک آئی ڈی لاگ ان کیجئیے ۔

2 : اکاونٹ سیٹنگ سیلیکٹ کریں ۔

3 : بائیں جانب سیکوریٹی کے آپشن پر کلک کریں ۔

4 : دائیں جانب ایک بکس کھُلے گا ۔

5 : بکس کے سب سے نیچے میں آکاونٹ ڈی ایکٹیویشن کا آپشن نظر آئے گا اُس پر کلک کرکے آکاونٹ ڈی ایکٹیویٹ کیجیئے اورگھر سے باہر محنت مزدوری کرنے تشریف لے جائیں :D

محمود غزنوی نے جب ہندوستان کو فتح کیا

ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﻧﮯ ﺟﺐ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ
----------------------------------
ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺖ ﺗﻮﮌ ﮈﺍﻟﮯ ﺗﻮ ﺟﻮ ﺑﺖ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺗﻬﺎ ، ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﻮ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﮐﮯ ﭘﺠﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﺁﮦ ﻭ ﺯﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ : ﺍﺱ ﺑﺖ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺗﻮﮌﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻮﺽ ﺍﺱ ﺑﺖ ﮐﮯ ﻭﺯﻥ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺳﻮﻧﺎ ﻟﮯ ﻟﻮ .....
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻧﮯ ﺍﺭﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﯿﺎ ، ﺳﺐ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﻓﺘﺢ ﺗﻮ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ، ﺍﺏ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﺖ ﮐﻮ ﭼﻬﻮﮌ ﺑﻬﯽ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺧﺎﺹ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ . ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﺟﻮ ﻣﺎﻝ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﻭﮦ ﻟﺸﮑﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ..
ﺍﺳﯽ ﻟﺸﮑﺮ ﮐﮯ ﺳﭙﮧ ﺳﺎﻻﺭ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻏﺎﺯﯼ ﺑﻬﯽ ﺗﻬﮯ . ﺍﻧﻬﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﺖ ﻓﺮﻭﺷﯽ ﮨﮯ . ﺍﺏ ﺗﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﺖ ﺷﮑﻦ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺗﻬﮯ ، ﺍﺏ ﺑﺖ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﮩﻼﺋﯿﮟ ﮔﮯ ..
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ، ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ ﺣﺪ ﺗﮏ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﺍﺏ ﺑﻬﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﻬﯽ . ﺩﻭﭘﮩﺮ ﮐﻮ ﺳﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﻬﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺣﺸﺮ ﺑﭙﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﺍﻧﻬﯿﮟ ﺩﻭﺯﺥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﮐﻬﯿﻨﭽﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﺖ ﻓﺮﻭﺵ ﮨﮯ ، ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﺖ ﺷﮑﻦ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎﻭ ..
ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﻬﻞ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻓﻮﺭﺍ ﺍﺱ ﺑﺖ ﮐﻮ ﺑﻬﯽ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ . ﺟﺐ ﺑﺖ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﺍ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﺳﮯ ﮐﺜﯿﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﻧﮑﻠﮯ ..
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻧﮯ ﺣﻖ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺖ ﻓﺮﻭﺷﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻣﺎﻝ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺑﺖ ﻓﺮﻭﺷﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﻬﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺎﻝ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ...
.
.
.

Monday, 17 October 2016

غزل"لگتا نہیں ہے"

لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں

ان حسرتوں سی کہ دو کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغ دار میں

دن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کُنجِ مزار میں

کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
                                            (کلیاتِ ظفر)
KM Photography Profile
www.facebook.com/kmphotography.net

غزل"دل نادان"

دل نادان تُجھے ہوا کیا ہے
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے

ہم ہیں مشتاق اور وہ ہیں بیزار
یا الہی! ماجرا کیا ہے

میں بھی منھ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

ہم کو ان سے، وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے، وفا کیا ہے

ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے

جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
                                      (دیوانِ غالب)
KM Photography Profile
www.facebook.com/kmphotography.net

غزل "رخ زلف"

رُخ زلف پر جان کھویا کیا
اندھیرے اجالے میں رویا کیا

ہمیشہ لکھے وصفِ دندان یار
قلم اپنا موتی پرویا کیا

کہوں کیا ہوئی عمر کیونکر بسر
میں جاگاکیا، بخت سویا کیا

رہی سبز بے فکرِ کِشتِ سخن
نہ جوتا کیا میں، نہ بویا کیا

برہمن کو باتوں کی حسرت رہی
خدا نے بتوں کو نہ گویا کیا

مزا غم کے کھانے کا جس کو پڑا
وہ اشکوں سے ہاتھ اپنا دھویا کیا

زنخداں سے آتش محبت رہی
کنویں میں مجھے دل ڈبویا کیا
                              (کلیاتِ آتش:جلد اوّل)
KM Photography Profile
www.facebook.com/kmphotography.net

غزل "ہستی اپنی"

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

چشمِ دل کھول اُس بھی عالم پر
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے

بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے

میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے

آتشِ غم میں دل بُھنا شاید
دیر سے بو کباب کی سی ہے

میر اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی ہے
                               (کلیاتِ میر:دیوانِ اوّل)
KM Photography Profile
www.facebook.com/kmphotography.net

ایسے الفاظ جو آپ نے کبھی نہیں پڑھے ہوں گے

پڑھیے اگر پسند آئے تو شئیر کیجیے

1⃣ سفرکا مزه لینا هو توساتھ میں سامان کم رکھیں.زندگی کا مزه لینا هو تودل کے ارمان کم رکھیں.
════════════
2⃣ مٹی کی پکڑ بہت مضبوط هوتی هے.سنگ مرمر پر تو پاؤں هی پھسلا کرتے هیں.
════════════
3⃣ زندگی کو اتنا سیریس مت لو
دنیا سے زنده کوئی بھی نهیں گیا.
════════════
4⃣ جن کے پاس سِکّے تھےوه مزے سے بارش میں بھیگتےرهے.جن کے پاس نوٹ تھےوه چھت تلاش کرتے ره گیۓ.
════════════
5⃣ پیسه انسان کو اوپر لیجا سکتا هےلیکن انسان پیسے کو کبھی اوپر لے کر نهیں جا سکتا.
════════════
6⃣ کمائی چھوٹی یا بڑی هو سکتی هےلیکن روٹی کا سائز هر گھر میں ایک جیسا هی هوتا هے.
════════════
7⃣ انسان کی چاهت هےکه اڑنے کو پر ملےاور پرندے کی چاهت هے رهنےکو گھر ملے.
════════════
8⃣ چھوٹی چھوٹی باتیں دل میں رکھنےسے بڑے بڑے رشتے کمزور هو جاتے هیں.
════════════
9⃣ پیٹھ پیچھے آپکی بات چلے تو گبھرانا مت کیونکہ بات انھیں کی هوتی هے جن میں کوئی بات هوتی هے..
════════════

What do you think about your life now !!
🌹

Sunday, 16 October 2016

قرضہ ہے یا قبضہ ہے

A little longer but a Real Worth Reading n EYE OPENER
روف کلاسرہ کا آج کا لم پڑھنا محب الوطنی کا تقاضا بھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں پاکستان ٹیلی ویژن کی اسلام آباد، لاہور، کراچی اورکوئٹہ کی عمارتیں بچ گئی تھیں جنہیں گروی رکھ کر اب اسحاق ڈار سکوک بانڈزکے نام پر قرضہ لے رہے ہیں۔ وزارت خزانہ کو پتا چلا کہ پی ٹی وی کی ان عمارتوں سے بھی کام نہیں چلے گا کیونکہ قرضہ بڑی مقدار میں لینا مقصود ہے، لہٰذا فیصلہ ہوا کہ ریڈیو پاکستان کے ملک بھر میں پھیلے نیٹ ورک کی تمام عمارتوںکو بھی گروی رکھا جائے۔ سروے کرایا گیا تو پتا چلا پاکستان میں ریڈیو پاکستان کی اکسٹھ عمارتیں ہیں۔ حکم ہوا کہ ان سب کی قیمت لگائی جائے اور پتا کیا جائے کہ ان پرکتنا قرضہ مل سکتا ہے۔ جس نے قیمت لگائی اسے داد دیں، اس نے ان تمام عمارتوں کی مجموعی قیمت بہترکروڑ روپے لگائی۔ آپ یقیناً حیران ہوںگے کہ سپریم کورٹ کے سامنے واقع ریڈیو پاکستان کے ہیڈکوارٹر کی عمارت کی قیمت پانچ سے دس ارب روپے ہونی چاہیے جو ایک پنج ستارہ ہوٹل کے قریب واقع ہے۔ اس ہوٹل کی قیمت یقیناً اربوں روپے ہوگی، لیکن ریڈیو پاکستان کی اس عمارت کی قیمت صرف چند کروڑ روپے لگائی گئی۔
میرے پاس موجود دستاویزات کے مطابق ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کو وزارت خزانہ کی طرف سے حکم ملا کہ سکوک بانڈز خریدنے کے لیے ان کی عمارتوںکوگروی رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ یہ قرضہ ملک چلانے کے لیے ضروری ہے۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کی انتظامیہ کو مطمئن کرنے کے لیے کہا گیا کہ وہ پریشان نہ ہوں،اس سے پہلے اسحاق ڈار موٹروے اور کراچی ایئرپورٹ کو بھی گروی رکھ کر قرضے لے چکے ہیں۔ اب باری پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی عمارتوں کی ہے۔ اس پر ان اداروں کے سربراہوںکو حکم ہوا کہ وہ فوری طور پر اپنے اپنے بورڈزکے اجلاس بلائیں اوروزارت خزانہ کے اس حکم کی تعمیل کی جائے۔ ایک قرارداد بھی تیارکی گئی تاکہ اس کو منظور کرنے کے فوراً بعد ان سرکاری عمارتوںکی کاغذی کارروائی پوری کرکے دستاویزات ان سرمایہ کاروں کے حوالے کی جائیں جو ان عمارتوں پر قرضہ دیںگے۔ اگر سود سمیت انہیں قرضہ واپس نہ کیا گیا تو انہیں یہ حق ہوگا کہ وہ ان عمارتوںکا کنٹرول سنبھال لیں۔
میں نے جس دن یہ خبر اپنے ٹی وی شو میں بریک کی، اگلے روز ریڈیو پاکستان کے بورڈ کا اجلاس ہونا تھا اوران عمارتوں کو قرضہ لینے کے لیے استعمال کرنے کی منظوری دی جانی تھی۔ اجلاس میں یہ سوال اٹھایاگیا کہ کس نے اکسٹھ عمارتوںکی قیمت صرف بہترکروڑ روپے لگائی گئی؟ کس نے ان عمارتوں کی مارکیٹ ویلیو (قیمت) پتاکرائی کہ اگر انہیں بیچا جائے تو یہ صرف بہترکروڑ روپے کی بکیں گی؟ اب نئے سرے سے ان کا سروے ہوگا، شاید چند ڈالر زیادہ مل جائیں۔ اگرچہ اس اجلاس میں فیصلہ نہ ہو سکا لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی کیونکہ اسحاق ڈارکو اس وقت ڈالرز چاہئیں تاکہ وہ فخریہ کہہ سکیں کہ انہوں نے ملکی خزانہ بھر دیا ہے اور ریزرو تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
تاریخ کی بلند ترین سطح پر ریزرو پہنچانے کا جنون ہمیں اس حالت میں لے آیا ہے کہ اب عالمی ادارے ہماری ساورن گارنٹی پراعتبار کرنے کو تیار نہیں رہے اور وہ چاہتے ہیںکہ پاکستان پہلے اپنی سرکاری عمارتیںگروی رکھے۔ مجھے یاد ہے،کبھی ساورن گارنٹی دینا بہت بڑی خبر ہوتی تھی کہ حکومت پاکستان نے قرضہ لینے کے لیے ساورن گارنٹی دے دی ہے کہ اگر فلاں محکمے نے قرضہ واپس نہ کیا تو حکومت واپس کرے گی، مدت پوری ہونے پر اگر قرضہ واپس نہ ہوا تو وہ پارٹی عالمی فورم پر جا کر سود سمیت اپنا قرضہ واپس لے سکتی ہے۔ پہلے ایک آدھ قرضے کے لیے ساورن گارنٹی دی جانے لگی، پھر قرضہ دینے والوںکو پتا چل گیاکہ ان تلوں میںتیل نہیں رہا، کب یہ دکان بند ہوجائے اور وہ قرضہ واپس نہ لے سکیں، لہٰذا ہر ایک نے ساورن گارنٹی مانگنا شروع کردی۔ ڈالرز لینے کے چکر میں ہمارے سب وزیرخزانہ یہ گارنٹیاں دیتے رہے اور ایک دن ساورن گارنٹیاں بھی ٹکے ٹوکری ہوکر رہ گئیں۔
اب بات سارون گارنٹی سے آگے نکل گئی ہے۔ اب ساہوکار حکومت پاکستان کی گارنٹی پر یقین بھی نہیں کرتا۔ اب وہ کہتا ہے آپ کا کیا بھروسہ، کل کو دلوالیہ ہوجائو تو ہم کہاں سے گارنٹیاں کیش کراتے پھریںگے۔ سیدھی بات کرو اور اپنے اثاثے ہمارے حوالے کرو اور ڈالر لو۔ یوں پہلی دفعہ پاکستان نے ایک فیصلہ کیا اور موٹرویزکوگارنٹی کے طور پرگروی رکھ کر قرضہ لیا۔ اس کے بعد دوسرے موٹر وے کی باری آئی اور پھر تیسرے کی۔ جب سب موٹروے ختم ہوگئے تو خیال آیا کہ اب ملک کے ایئر پورٹس کوگارنٹی
کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سب سے پہلے کراچی ایئرپورٹ کو گروی رکھ کر قرضہ لیا گیا۔ یقیناً جن عالمی بینکوں یا ساہوکاروں سے قرضہ لیا گیا ہوگا وہ اپنی نسلوں کو فخر سے بتاتے ہوںگے کہ بیٹا میں پاکستان میں ایک ایئرپورٹ کا مالک ہوں، پاکستان کے موٹروے میری ملکیت ہیں۔ دعا کرو پاکستانی حکومت کرپشن پر لگی رہے، ایکسپورٹس گرتی رہے، بیرون ملک پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقومات میں کمی آتی رہے، اس ملک کے حکمرانوںکی شاہی خرچیاں چلتی رہیں، بیوروکریسی اسی طرح اپنے ہی ملک کو لوٹتی رہے، شاہی خاندان کی حفاظت پر سات ارب روپے خرچ ہوتے رہیں، لندن سے لاہور پی آئی اے کے خصوصی طیارے وزیراعظم کو لاتے رہیں، وزیراعظم پاکستان دنیا بھر کے سو ممالک کے دورے قرض کی رقم سے چند ماہ میں پورے کر کے ریکارڈ قائم کرلیں تو بیٹا یہ سب کچھ ہمارا ہوگا،کیونکہ پاکستانی ہمارے قرضے واپس نہیں کرسکیںگے۔ جس ملک کا بجٹ کا بڑا حصہ بیرونی قرضوں کی واپسی میں جاتا ہے وہ بھلا کب اور کیسے قرضے واپس کرے گا۔ خصوصاً جب ماہرین معیشت یہ پیش گوئی کر رہے ہوںکہ موجودہ دور حکومت کے اگلے دو برس میں بیرونی قرضوں کا حجم نوے ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ بہتر ارب ڈالرکا قرضہ ہوچکا اور واپس کرنے کے لیے نئے قرضے لیے جاتے ہیں تو اندازہ کرو جب یہ قرضے دو برس بعد نوے ارب تک پہنچیں گے تو پھر گنجی کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی!
سابق سیکرٹری خزانہ واجد رانا کا اخبار میںبیان پڑھا کہ اب تک اسحاق ڈار تین برسوں میں چوبیس ارب ڈالرقرضہ لے چکے ہیں۔ سابق وزیرخزانہ حفیظ پاشا پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ 2018ء تک پاکستان کے قرضے نوے ارب ڈالر ہوجائیں گے اور پاکستان واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ سینیٹر انور بیگ کہتے ہیںکہ انہیں ایک مغربی سفارتکار نے بتایا تھا کہ پاکستان کو قرضوں کے جال میں پھنسانے کا پورا پلان ہے۔ جب نوے ارب ڈالر تک قرضے پہنچیںگے اور پاکستان واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا تو پھر اسے اپنے ایٹم بم پر کمپرومائزکرنا پڑے گا ورنہ دنیا بھر میں تنہائی کا شکار ہوگا اور چند دنوں میں ہی دلوالیہ ہوجائے گا۔
دوبرس قبل دھرنے کے دنوں میں جب پاکستان عوامی تحریک کے ورکرز پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہوگئے تھے تو اسے پاکستان پر حملہ قرار دیا گیا تھا اور مقدمے درج کر کے گرفتاریاں شروع ہوگئی تھیں۔ اب جبکہ اسی پی ٹی وی کی عمارت کو گروی رکھ کر ڈالر لینے کا پلان ہے تو اسے کیا تصور کیا جائے؟پارلیمنٹ ہائوس، ایوان صدر ، وزیراعظم ہائوس اور وزیراعظم سیکرٹریٹ کو بھی گروی رکھا جاسکتا ہے۔ امید ہے یہ تمام عمارتیں بھی اسحاق ڈار کی فہرست میں شامل ہوںگی۔
ہاں، میں یہ تو بھول ہی گیا کہ ایک منسٹرانکلیو بھی موجود ہے جہاں سب وزراء کی سرکاری رہائش گاہیں ہیں۔ اگر اسے بھی گروی رکھا جائے تواسحاق ڈار بہت ڈالر ساہوکاروں اور عالمی بینکوں سے ہتھیا سکتے ہیں۔ ویسے تو ججوں کی کالونی بھی منسٹرز اینکلیو کے قریب ہی واقع ہے، اسے گروی رکھ کر بھی خاصہ قرضہ لیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈپلومیٹک انکلیوکو بھی گروی رکھنے پر غور ہو سکتا ہے۔ تمام بڑے ممالک جو ہمیں قرضے دیتے ہیں ان سب کے سفارت خانے وہیں ہیں، لہٰذا نئے قرضوں کی ڈیل جلدی اور اچھی مل سکتی ہے۔
RIZWAN PRINCE☆☆☆
Copied*

ماہرین نےدنیا میں بہت بڑے پیمانے پر سائنسی تبدیلیوں کی پیش گوئیاں کی ہیں

نیو یارک: ماہرین نے 2025 تک دنیا میں بہت بڑے پیمانے پر سائنسی تبدیلیوں کی پیش گوئیاں کی ہیں۔

ماہرین مستقبل کی دنیا کے حوالے سے ہمیشہ ہی پر جوش رہے ہیں، ایک فرم تھامسن رائٹرز کی اسی طرح کی تحقیق میں ماہرین نے 10 سال بعد کی دنیا کے حوالے سے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کے بہت سے افراد 2025 میں جہاز اڑانے کے لائسنس (پائلٹ لائسنس) کے حامل ہوں گے، ایندھن اور توانائی کے نئے ذرائع آ چکے ہوں گے جبکہ خوراک کی کمی کا معاملہ قابو کر لیا جائے گا۔

ماہرین نے اپنی پیش گوئیاں خصوصی اعداد و شمار اور عالمی رحجانات کو مدنظر رکھ کر کی ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ 10 سال میں ٹیکنالوجی اور بائیو لوجیکل سائنس میں بہت تیزی سے ترقی نظر آئے گی، یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایسا ڈی این اے ایسا نقشہ تخلیق کر ہی لیا جائے جو امراض سے محفوظ رہ سکے۔

ماہرین نے یہ بھی پیش گوئی کی ہے کہ عین ممکن ہے کہ بجلی سے اڑنے والے جہاز عام ہوں اور دنیا کے اکثر افراد ہوا بازی کی تربیت حاصل کر چکے ہوں گے۔

ایکسپرٹ کی 2025 کے حوالے سے پیش گوئیوں پر مبنی ڈیلی میل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گھروں سے لے کر اخبارات تک ہر چیز ڈیجیٹل ہو جائے گی۔

تحقیق میں ماہرین نے ایسے سائنٹیفک ایریاز کے حوالے سے پیش گوئیاں کی ہیں جن میں تیزی سے تبدیلیاں آئیں گی ، محققین کے مطابق جنگ عظیم دوئم کے بعد یعنی 1946 سے 1964 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد 80 سال کی عمر کو پہنچ چکے ہوں گے اور اس عرصے کے متاثرہ افراد کے لیے مزید فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہو گی۔

شمسی توانائی کا استعمال بڑھ جائے گا اور اس توانائی کو کراہ عرض پر بنیادی حیثیت حاصل ہو جائے گی، موذی امراض کے خلاف انسانی جسم کی مدافعت بڑھانے میں ماہرین کو کامیابی حاصل ہوگی، عین ممکن ہے کہ شوگر کی ٹائپ ون سے بچائو کا طریقہ بھی دریافت کیا جا چکا ہو۔

جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا بھر میں خوراک کی کمی اور قیمتوں میں تیزی سے تبدیلی کے معاملے پر بھی قابو پا لیا جائے گا اور خوراک کی کمی ماضی کا قصہ بن جائے گا۔

ماہرین کا دعویٰ کا ہے کہ ہلکی مگر پایئدار الیکٹرک گاڑیوں کے ساتھ ساتھ الیکٹرک جہاز بھی متعارف کروائے جا چکے ہوں گے، چھوٹے تجارتی جہاز آسمان پر نظر آنے لگیں گے یہ الیکٹرک جہاز چھوٹی جگہ سے پرواز کر سکیں گے اور اس طرح ان کو تھوڑی سی جگہ پر اتارا بھی جا سکے گا، جہاز سازی کی صنعت کی اس ترقی کے باعث پائلٹ لائسنس کا حصول 21ویں صدی میں بلوغت کی نشانی سمجھا جانے لگے گا۔

محققین پیش گوئیوں میں مزید کہتے ہیں کہ گھر میں موجود کار اور دیگر آلات سمیت اکثر و بیشتر اشیا انتہائی ڈیجیٹل ہو جائیں گی جو انسانی خواہش کے عین مطابق کام کریں گی، دنیا میں تمام انسان ڈیجٹیل رابطے میں ہوں گے، تصور کیجیے کہ پورا افریقہ ایک دوسرے سے ڈیجیٹل رابطے میں ہوگا اور یہ دن 2025 میں آ چکا ہو گا۔

توانائی کے استعمال کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات بھی ماضی کا قصہ بن جائیں گی ان کی جگہ کچرے اور دیگر متبادل ذرائع کی توانائی جگہ لے چکی ہو گی۔

محققین کے مطابق ادویہ سازی کی تحقیق اس حد تک ترقی کر لے گی کہ انسانی جسم کی ضرورت کے عین مطابق دوائیں دستیاب ہوں گی جس سے کسی بھی مرض سے درست علاج ممکن ہو سکے گا اور دوائوں کے انسانی جسم پر مضر اثرات کو بہت حد تک کم کر لیا جائےگا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نینو ٹیکنالوجی عروج کی جانب گامزن ہو گی، انسانی جسم کے عین مطابق ڈی این اے میپنگ کی جا سکے گی جس سے پیدائش کے وقت ڈی این اے میپنگ(نقشے کی تیاری) کی جا سکے گی اور سال میں ایک بار اپنا معائنہ کروائے جانے پر امراض کی تشخیص اسی ڈی این اے میپنگ سے ہو سکے گی۔
---

اگر آپ موسیقی کے شوقین ہیں تو اسے ضرور پڑھیے

اگر آپ موسیقی کے شوقین ہیں تو اسے ضرور پڑھیے
کرہ ارضں پہ ریت کے ذروں کی مانند بکھرے لوگوں کو جو چیز ایک شناخت کی لڑی میں پروتی ہے وہ ہے لوگوں کی ایک  تہذیب ایک ورثہ، ایک ثقافت۔ اسی ثقافت کی آیینہ دار اس کی لوک داستانیں ہیں۔ ہماری لوک داستانوں میں سسی پنوں کا حقیقی یا افسانوی کردار نہایت اہم رہا ہے۔ فوک سانگ یا لوک گیتوں میں ان کرداروں کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا جاتا ہے۔ اور علاقائی کلچر کی بھرپور نمائیندگی کی جاتی ہے۔ ہماری دھرتی کے یہ لوک گیت قومیت کی چھتری تلے دم توڑتے جا رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک گیت سسی پنوں کی داستان پر معروف لوک شاعر عابد نے لکھا اور اللہ دتہ لونے والہ نے نہایت عمدہ انداز سے گایا ۔ اللہ دتہ کی پرسوز آواز کے ساتھ گیت کی موسیقی میں اونٹوں کے پاوں اور گلے کی گھنٹیوں کی آوازوں کو اس مہارت کےساتھ سمویا گیا ہے کہ حقیقت میں خود پہ صحرا میں سفر زن ہونےاور عینی شاھد ہونے کا گماںُ ہوتا ہے اور صحرائی داستان کا آپ بھی ایک کردار بن جاتے ہیں۔  مکالماتی انداز میں لکھا گیا گیت اس قدرالمیہ اور دلسوز ہے کہ بے ساختہ آنکھیں بھیگتی ممحسوس ہوتی ہیں۔ آنکھیں بند کر کے پر سکون ہو کر سنئیے، آپکو صحرا کی گرد اور لو اپنے چہرے پہ پڑتی محسوس ہو گی!
موسیقی سننےوالے جوان اسے folkpunjab.comسے ڈاونلوڈ کریں یا sassi by Allah Ditta lunay wala mp3 لکھ کر سرچ کریں۔ مجھے یقین ہے آپ اپنے لوک ورثے کی قدر کرنے اور فنکار کے فن کی داد دینےپر مجبور ہو جائیں گے!

استاد اور شاگرد کا رشتہ کیا ہوتا...

ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﮔﺎﺭﻟﯿﻨﮉ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﻼﺱ 5 ﮐﯽ
ﭨﯿﭽﺮ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ " ﺁﺋﯽ ﻟﻮ ﯾﻮ ﺁﻝ " ﺑﻮﻻ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﭻ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮑﺴﺎﮞ ﭘﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﭽﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺁﮞﮑﮫ ﻧﮧ ﺑﮭﺎﺗﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺟﯿﮉﯼ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﯿﮉﯼ ﻣﯿﻠﯽ ﮐﭽﯿﻠﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺁﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺑﮕﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ، ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺴﻤﮯ ﮐﮭﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ، ﻗﻤﯿﺾ ﮐﮯ ﮐﺎﻟﺮ ﭘﺮ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻥ۔ ۔ ۔ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ۔
ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﮯ ﮈﺍﻧﭩﻨﮯ ﭘﺮ ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺗﻮ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﺎﻟﯽ ﺧﻮﻟﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺻﺎﻑ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮐﮧ ﺟﯿﮉﯼ ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﮯ۔ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﺟﯿﮉﯼ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺳﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺟﯿﮉﯼ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﯽ ﺳﺨﺖ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ۔ ﮨﺮ ﺑﺮﯼ ﻣﺜﺎﻝ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﺑﭽﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﮭﻠﮑﮭﻼ ﮐﺮ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺬﻟﯿﻞ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﺟﯿﮉﯼ ﻧﮯ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻟﮕﺘﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﺮ ﮈﺍﻧﭧ، ﻃﻨﺰ ﺍﻭﺭ ﺳﺰﺍ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﺲ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﻋﺎﺭﯼ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﺍﺏ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﭼﮍ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﮩﻼ ﺳﯿﻤﺴﭩﺮ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺭﭘﻮﺭﭨﯿﮟ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺮﺣﻠﮧ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﻧﮯ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺮﺍﺋﯿﺎﮞ ﻟﮑﮫ ﻣﺎﺭﯾﮟ۔ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯿﮉ ﻣﺴﭩﺮﯾﺲ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﺑﻼ ﻟﯿﺎ۔ " ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺑﮭﯽ ﻧﻈﺮﺁﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﻧﺎ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﻨﮕﮯ۔ " " ﻣﯿﮞﻤﻌﺬﺭﺕ ﺧﻮﺍﮦ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﺟﯿﮉﯼ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﺑﺪﺗﻤﯿﺰ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﻤﺎ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮫ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮﮞ۔ " ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﻧﻔﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ ﺁﺋﯿﮟ۔
ﮨﯿﮉ ﻣﺴﭩﺮﯾﺲ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﯽ ﮈﯾﺴﮏ ﭘﺮ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﺭﮐﮭﻮﺍ ﺩﯾﮟ۔ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﯼ۔ ﺍﻟﭧ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﮨﯿﮟ۔ " ﭘﭽﮭﻠﯽ ﮐﻼﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﯾﮩﯽ ﮔﻞ ﮐﮭﻼﺋﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ۔ " ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻼﺱ 3 ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮭﻮﻟﯽ۔ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﻤﺎﺭﮐﺲ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﺟﺐ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻔﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﭘﮍﯼ ﮨﮯ۔ " ﺟﯿﮉﯼ ﺟﯿﺴﺎ ﺫﮨﯿﻦ ﺑﭽﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ " " ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺣﺴﺎﺱ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭨﯿﭽﺮ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻟﮕﺎﺅ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ ""
ﺁﺧﺮﯼ ﺳﯿﻤﺴﭩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟﯿﮉﯼ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯽ ﮨﮯ۔ " ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﻧﮯ ﻏﯿﺮ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻼﺱ 4 ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮭﻮﻟﯽ۔ " ﺟﯿﮉﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺍﺛﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ۔ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮨﭧ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ " " ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﺳﭩﯿﺞ ﮐﺎ ﮐﯿﻨﺴﺮ ﺗﺸﺨﯿﺺ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔ ۔ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﮯﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﺎ ﮔﮩﺮﺍ ﺍﺛﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ۔ " "
ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻣﺮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺭﻣﻖ ﺑﮭﯽ ۔ ۔ ﺍﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔ " ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﭘﺮ ﻟﺮﺯﮦ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﮐﺎﻧﭙﺘﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺑﻨﺪ ﮐﯽ۔ ﺁﻧﺴﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﮔﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﻣﺴﺘﻤﺮﮦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﺟﻤﻠﮧ " ﺁﺋﯽ ﻟﻮ ﯾﻮ ﺁﻝ " ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﯽ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﭽﮯ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﺴﺐِ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﺟﯿﮉﯼ ﭘﺮ ﺩﺍﻏﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﯿﮉﯼ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯿﮉﺍﻧﭧ ﭘﮭﭩﮑﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﮨﻨﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﻨﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺧﻼﻑِ ﺗﻮﻗﻊ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺁﺝ ﺑﻞ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ، ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﻠﻮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﺩﮨﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮩﺎ۔
ﺟﯿﮉﯼ ﺗﯿﻦ ﭼﺎﺭ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﮯ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﺧﺮ ﺑﻮﻝ ﮨﯽ ﭘﮍﺍ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯽ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺧﻮﺩ ﭘﺮﺟﻮﺷﺎﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻟﯿﺎﮞ ﺑﺠﺎﺋﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺠﻮﺍﺋﯿﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺭﻭﺯ ﮐﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻦ ﮔﯿﺎﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮨﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺑﺘﺎﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺏ ﭘﺬﯾﺮﺍﺋﯽ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﮨﺮ ﺍﭼﮭﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺟﯿﮉﯼ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﺟﯿﮉﯼ ﺳﮑﻮﺕ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﭘﮭﺎﮌ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﮔﯿﺎ۔ ﺍﺏ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮧ ﭘﮍﺗﯽ۔ ﻭﮦ ﺭﻭﺯ ﺑﻼ ﻧﻘﺺ ﺟﻮﺍﺑﺎﺕ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﺘﮯ ﻧﺌﮯ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﭘﻮﭼﮫ ﮐﺮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺳﻨﻮﺭﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ، ﮐﭙﮍﮮ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺻﺎﻓﮩﻮﺗﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺩﮬﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺳﺎﻝ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﮉﯼ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻟﯽ۔ ﺍﻟﻮﺩﺍﻋﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺑﭽﮯ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﺤﻔﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﮯ ﭨﯿﺒﻞ ﭘﺮ ﮈﮬﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺍﻥ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﮏ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺪ ﺳﻠﯿﻘﮧ ﻃﺮﺯ ﭘﺮ ﭘﯿﮏ ﮨﻮﺍ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﻔﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﭽﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﮮ۔ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﻧﮧ ﻟﮕﯿﮑﮧ ﺗﺤﻔﮯ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﯾﮧ ﭼﯿﺰ ﺟﯿﮉﯼ ﻻﯾﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﻧﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﮐﮯ ﺍﺱ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﺎﮌ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻟﭙﮏ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻧﮑﺎﻻ۔ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﻟﯿﮉﯾﺰ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﮐﯽ ﺁﺩﮬﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺷﺪﮦ ﺷﯿﺸﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺳﺎ ﮐﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻣﻮﺗﯽ ﺟﮭﮍ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﻧﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ ﭼﮭﮍﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﮍﺍ ﭘﮩﻦ ﻟﯿﺎ۔ ﺑﭽﮯ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔ ۔ﺧﻮﺩ ﺟﯿﮉﯼ ﺑﮭﯽ۔ ﺁﺧﺮ ﺟﯿﮉﯼ ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﻧﮧ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭨﮏ ﺍﭨﮏ ﮐﺮ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ " ﺁﺝ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺟﯿﺴﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ " ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﮌﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺩﻥ ﮨﻔﺘﻮﮞ، ﮨﻔﺘﮯ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺑﮭﻼ ﮐﮩﺎﮞ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ؟ ﻣﮕﺮ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﭘﺮ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻂ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻮﺻﻮﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ " ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻧﺌﮯ ﭨﯿﭽﺮﺯ ﺳﮯ ﻣﻼ۔ ۔ ﻣﮕﺮ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ " ﭘﮭﺮ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﺎ ﺍﺳﮑﻮﻟﺨﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻄﻮﻁ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ۔ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﻣﺰﯾﺪ ﮔﺰﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﺍﮎ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﺎ ﺧﻂ ﻣﻼ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ :" ﺍﺱ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ۔۔ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻞ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ۔ ۔ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ - ﮈﺍﮐﮍ ﺟﯿﮉﯼ ﺍﻟﻔﺮﯾﮉ " ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﭨﯿﮑﺴﺎﺱ ﮐﺎ ﺭﯾﮍﻥ ﭨﮑﭧ ﺑﮭﯽ ﻟﻔﺎﻓﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮧ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﭨﯿﮑﺴﺎﺱ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺷﺎﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﻮ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮨﯽ ﺳﺮﭘﺮﺍﺋﺰ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﺳﻠﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﻮﭨﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﮎ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﻋﯿﻦ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻭﮦ ﭼﺮﭺ ﭘﮩﻨﭽﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﻟﯿﭧ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﮈﺍﮐﮍ، ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮯ ﭼﺮﭺ ﮐﺎ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﺍﮐﺘﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺟﯿﮉﯼ ﺭﺳﻮﻣﺎﺕ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﮔﯿﭧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭨﮑﭩﮑﯽ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﮐﺎ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﮩﻨﭽﺘﮯ ﮨﯽ ﺟﯿﮉﯼ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍﺍ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻭﮦ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺳﺎ ﮐﮍﺍ ﭘﮩﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺍﺳﭩﯿﺞ ﭘﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﺎﺋﯿﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ " ﺩﻭﺳﺘﻮ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﻠﺪ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻮﺍﺅﻧﮕﺎ۔ ۔ ۔ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮨﯿﮟ ---------------
!!"------------------------------- ﻋﺰﯾﺰ ﺩﻭﺳﺘﻮ ﺍﺱ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﺮ ﮐﮧ ﮨﯽ ﻣﺖ ﺳﻮﭼﯿﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ، ﺟﯿﮉﯼ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺌﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﻣﺮﺟﮭﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺗﻮﺟﮧ، ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﺷﻔﻘﺖ ﻧﺌﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﯽ

Muneeb Umair Saqi

Muneeb Umair Saqi